Introduction (urdu)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قلندر پاک(رحمتہ اللہ علیہ) کے تمام پیارکرنے والوں کو

السلام علیکم

اس سے پہلے کہ قلندر پاک ؒ کی شخصی اور روحانی زندگی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی جائے ، میں یہ بات ضروری سمجھتا ہوں کہ آپکی پیدائش، وصال، عُرس اور وراثت کے حوالے سے موجود چند بے بنیاد الجھنوں اور غلط فہمیوں کو دور کر دوں، تاکہ وہ تمام لوگ جو آپکے فیض سے مستفیدہوتے ہیں اور آپ ؒ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں وہ کسی بھی الجھن کا شکار ہوئے بغیر حقیقت سے روشناس ہو سکیں اور سورۃ الرحمن کے پیغام کو ایک تسلسل سے دکھی انسانیت تک پہنچائیں۔
یاد رکھیں!
قلندر پاک ؒ سے محبت کا واحد اور مضبوط راستہ صرف اور صرف سورۃ الرحمن کے پیغام کو بے غرض ہو کر دکھی انسانیت تک پہنچانا ہے۔

پیدائش(قلندر پاک بابا بخاریؒ )

قلندر پاک ؒ المعروف کاکیاں والی سرکارؒ کا اصل نام سیّد صفدر حسین بخاری ہے۔ آپ ؒ 6 مئی 1940 بمطابق۲۸ ربیع الاول ۱۳۵۹ ہجری بروز پیر (Monday) ڈُھڈی تھل ، تحصیل پنڈدادن خان، ضلع جہلم کے ایک متمول سیّد گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپؒ بخاری سادات سے ہیں اور سلسلہ نسب کئی واسطوں سے حضرت مخدوم جلال الدین جہاں گشت سہروردی المعروف مخدوم جہانیاں ؒ سے جا ملتا ہے۔آپؒ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے اور انہوں نے آپؒ کی پرورش نہایت توجہ اور محبت سے کی۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک سکول سے حاصل کرنے کے بعدگارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہوئے۔آپؒ کے والد بزرگوار سیّد گلزار حسین بخاری مرحوم ایک درویش صفت انسان تھے اور انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مشہور بزرگ حضرت سیّد شیر علی شاہ قلندرؒ کی ارادت میں گزارا، اور انکے پردہ کرنے کے بعدایک طویل عرصہ حضرت قلندرؒ کی بارگاہ واقع قتل گڑھی ضلع قصور میں جاروب کشی کی اور مزار کی دیکھ بھال سے لے کر زائرین کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔آپکو اپنے مرشد سے والہانہ عقیدت و محبت تھی جسکا اظہار وہ ہمیشہ میرے سے ہونے والی ملاقاتوں میں ضرور کرتے۔ایک دن دورانِ گفتگوشاہ صاحب نے ہمارے بابا جیؒ کی اوائل عمری میں بخار کی شدت اوراسکے تسلسل کے واقع کا ذکر کرتے ہوے فرمایا ” میں بیٹے کو بیماری کے عالم میں قلندر پاک سیّد شیر علی شاہ ؒ کی خدمت میں لے گیا تو آپؒ نے فرطِ محبت سے ایک نگاہ ڈالی توبیٹے کا بخار اتر گیا اور نہ صرف میرے بیٹے کو اس عارضے سے نجات ملی بلکہ قلندر محترم شیر علی شاہؒ آپ کو دیکھ کر بے حد مسکرائے”۔ آگے چل کر جب بابا بخاری ؒ مسند ولایت پہ فائز ہوئے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ اولیاء اللہ کی نظر مقدراتِ الہٰی کی امین ہوتی ہے۔

وصال(قلندر پاک بابا بخاریؒ )

قلندر پاکؒ 8 فروری 2005 بروز منگل بمطابق ۲۹ ذوالحجہ ۱۴۲۵ ہجری کو واصلِ بحق ہوئے۔ آج کل مختلف لوگ آپ کے یومِ وصال پر ایک ابہام کا شکار نظر آتے ہیں۔چنانچہ حقیقت سے آگہی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
قلندر پاکؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام راقم الحروف کے پاس گزارے اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ 1999  سے وہ راولپنڈی میں میرے ساتھ مستقل قیام کے خواہاں رہے اور اس سلسلے میں ایک بڑا گھر بھی دیکھا گیا تھا۔جہاں آستانے کا قیام اور میرے ساتھ انکی مستقل رہائش کا مقصود تھا۔بعد ازاں مکان دکھانے والے عقیدت مند نے میرے ساتھ قیام کے ارادے سے حسد کرتے ہوے یہ کہہ دیاکہ مالک مکان کا ابھی کرایہ پر دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس بات سے قطع نظر قلندر پاکؒ جب کبھی اسلام آباد تشریف لاتے تو میرے گھر پر بھی قیام فرماتے۔ میرے ساتھ رہنے کے ارادے کو قبول کرتے ہوئے اللہ پاک نے اس حقیر کو یہ سعادت بخشی کہ زندگی کے سب سے اہم ایام آپؒ نے میرے گھر پر گزارے اور یہیں پہ پردہ فرمایا ۔
8 فروری 2005 کو اسلامی تاریخ کے اعتبار سے ۲۸ ذوالحجہ تھی ، لیکن چونکہ آپکا وصال بعد نماز مغرب ہوا اور اسلامی کیلنڈر کے مطابق مغرب سے اگلا دن شروع ہوتا ہے ، اس لیے آپؒ کے وصال کی تاریخ ۲۹ ذوالحجہ ہے۔

مرض الموت

جنوری 2005 کے تیسرے ہفتے کے دوران کاکی عشرت عالیہ نے میری بیگم کو اطلاع دی کہ باباؒ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور وہ اتفاق ہسپتال کے ICU وارڈمیں داخل ہیں۔ اس وقت میں دفتر کے لیے روانہ ہو رہا تھا کہ بیگم صاحبہ نے فوراً لاہور جانے کا مشورہ دیا اور ہم وقت ضائع کیے بغیر فوراً لاہور روانہ ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے آپؒ کو Cardiac Failure بتایا۔جب میں ہسپتال پہنچا تو آپ ICU میں ایک بستر پر موجود تھے اور آپؒ کو آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔ مجھے اور بیگم کو دیکھ کر مسکرائے اور آکسیجن ماسک اتاردیا اور اردگرد جمع عقیدت مندوں کو وہاں سے جانے کا حکم دیا اور فرمایا ’’سیّد بابایہ پردے برابر کر دو اور یہاں میرے پاس بیٹھ جاؤ‘‘ ۔ حکم کی تعمیل کے بعد جب میں بیٹھ گیا تو فرمایا ’’یہ تمام عقل والے بابے کو بیمار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ مجھے کوئی بیماری لاحق نہیں۔ بلکہ یہ مرض الموت ہے، ہر بیماری کا علاج ممکن ہے مگر مرض الموت کا کوئی علاج نہیں۔ ‘‘ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے زمین پھٹ گئی ہو اور سانس اُکھڑ رہی ہو۔ وجود صرف ایک دھڑکن بن گیا، سوچ جیسے ناپید ہوگئی۔ اپنا آپ بے معنی ہوگیا، الفاظ جیسے گم گئے ہوں، وجود پر لرزہ اور قوتِ گویائی جیسے سلب ہوگئی ہو۔ اسی اثنا قلندر پاکؒ نے تخلیق کائنات اور مقصودِ تخلیق پر ایسے بولنا شروع کیا جیسے اپنے خالقِ محبوب سے محوِ گفتگو ہوں۔ ا للہ پاک کی عظمت، قدرت، لازوال حُسن اوراسکی ملکیت کا ذکر اس شدت سے فرمایا جس نے مجھے تحیر اور بے بسی کے عالم سے نکال کر ابدی حقیقت کی سچائی اور روشنی سے جیسے اچانک مضبوطی عطاکردی۔آپ ؒ کی اللہ پاک سے والہانہ محبت کا اظہار ایک سچے عاشق کی اپنے محبوب سے کلام اور محبت کی حقیقت کو آشکار کرتاہے ۔ حضرت با یزید بسطامیؒ نے فرمایا ’’میں 32 سال اللہ سے ہمکلام رہا اور لوگ یہی سمجھتے رہے کہ میں ان سے باتیں کر رہا ہوں‘‘۔ حضوری کی یہ نعمت عظمیٰ تمام صحابِ نورانیت کو عطا ہوئی۔ دوران گفتگو میں انہیں ایسے دیکھ رہا تھا گویا کہ پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ اس محویت کے دوران جیسے آپؒ اچانک مجھ سے مخاطب ہوئے’’سید بابا۔۔۔۔۔ اللہ پاک کی طرف سے واپسی کا امر آگیا ہے ۔ یار سے ملن کی گھڑی کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے سو جان لو کہ تمہارا بابا عنقریب اس دارِ فانی سے رخصت ہوجائے گا ‘‘۔

وصیت

اس کے بعد آپؒ نے فرمایا ’’سیّد بابا للّہ شریف سے باہر جس زمین پر میں نے سورۃالرحمٰن کے حوالے سے ریسرچ کرنے کیلئے جو آڈیٹوریم کا نقشہ بنوایا تھا اب اُسی جگہ میری تدفین کی جائے ۔اور اگر میرے گھر والے اس بات پر معترض ہوں پھر کلر کہار میں جگہ دیکھنا اور اگر وہاں بھی زمین نہ ملے تو سیّدجو تمہاری مرضی جہاں دل کرے دفنادینا۔ سیّد بابا تم میرے وارث ہو اب یہ بابا تمہارے حوالے۔‘‘ کانپتے ہاتھوں اور لرزتی زبان سے اچانک میرے منہ سے نکلا ’’آپ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں اور آنکھیں بند کرلیں‘‘۔ ناجانے کتنا وقت گزرگیا میری دھڑکن سے ایک ہی آواز آرہی تھی ’’اے اللہ میرے بابا کو عشق کی انتہاعطا فرما، مسیحائی کی دولت بانٹنے والے اور مردہ قلوب کو زندہ کرنے والے کو انسانی محتاجی سے دور فرما۔ اے اللہ میرے بابا کو عشق کی سلامتی عطا فرما ، تو رحمٰن ہے، رحیم ہے، کریم ہے، عظیم ہے، قادر مطلق ہے بابا کو عشق کی انتہا عطا فرما‘‘۔ مجھے وہ یاد تو نہیں بس ایسے تھا جیسے میں روبرو اللہ ایک فریاد ی کے روپ میں کھڑا تھا اور نہ جانے کتنی دیر گزر گئی اور اسی دوران قلندر پاکؒ کی ایک نہایت پیار کرنے والی ڈاکٹر میمونہ صاحبہ کی آواز نے اس یکسوئی کو توڑا۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ’’شاکر بھائی آپکی آنکھوں میں آنسو ، آپ بھی روتے ہیں ‘‘۔ اس بات پر جب میں نے غور کیا تو دیکھا کہ پورا دامن بھیگ چکا تھا۔ قلندر پاکؒ نے ذرا سخت لہجے میں ڈاکٹر میمونہ صاحبہ کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا اور پھرفرمایا ’’سیّد بابا ایک دفعہ اور یکسوئی اختیار کرو ‘‘ پھر وہی روبرو بس میرے وجود کے ایک ایک ذرے سے ایک ہی آواز آ رہی تھی۔ ’’میرے کریم اور رحمن شہنشاہ میرے بابا کو عشق کی انتہا عطا فرما، ہر قسم کی انسانی محتاجی سے دور فرما، میرے مالک ، میرے کریم رب میرے بابا کا عشق سلامت رکھیں ‘‘۔ اسی دوران میری بیگم (ڈاکٹر ارم) بھی آگئیں اور انہوں نے جب بابا جی کہہ کر آواز دی تو قلندر پاکؒ نے فرمایا ’’سیّد بابا آنکھیں کھول دو، بہت مزہ آیا، پردے ہٹا دو، ان سب کو بتا دو بابا تو کب کا مر چکا اب بابے کو موت نہیں آئیگی‘‘۔

مرن تھیں اگے مرگئے باہو تاں مطلب نوں پایا ہو
کیتی جاں حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ہو

ُٓٓٓٓٓٓٓٓ آپؒ نے حکم دیا کہ سب ڈاکٹروں کو اکٹھا کیاجائے ، پردے کھول دیئے جائیں اور ان سب کو بتاؤ کہ بابا کون ہے، یہ سورۃالرحمن کا پیغام کیا ہے۔ یوں سب ڈاکٹروں اور ICU میں موجود تمام مریضوں کو سورۃالرحمن جیسی نعمت عظمیٰ کے بارے میں بتایا گیا اور دعا کروائی گئی۔ شام کے وقت آپؒ نے فرمایا ’’سیّد بابا پھر وہی یکسوئی اختیار کرو‘‘۔ چنانچہ ایک بار دوبارہ پوری محویت کے ساتھ میں بارگاہِ رب ذوالجلال میں حاضر ہوا۔ لُوں لُوں سے ایک ہی آواز جاری تھی،’’ اے مالک، اے خالق، اے ربِ رحمن و الرحیم، اے قادرِ مطلق، اے جبار، اے قھار، اے عظیم الشان شہنشاہ میرے بابا کا تو سب سے بڑا گواہ ہے۔ تیرے اس عظیم دوست نے اپنی ہر سانس انسانیت کیلئے وقف کردی ہم جیسے مردہ قلوب کو زندہ کیا۔اے میرے خالق میرے بابا کو عشق کی انتہا عطا فرما ، انکا عشق سلامت رکھیں ۔ ‘‘ پھر دوبارہ نا جانے کتنا وقت گزر گیا اور قلندر پاکؒ نے میری آنکھ کھلوائی میری حالت ایسے تھی جیسے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ جیسے آگ کے تنور میں کوئی جل گیا ہو۔ میں اجازت لیکر باہر چلا گیا اور ہسپتال کے باہر کھڑا رہا اور نجانے کتنے سگریٹ پی گیا۔ رات تقریباََ 12 بجے میں نے گھر جانے کی اجازت مانگی تو فرمایا ’’سیّد بابا ایک بار یکسوئی اختیار کرو‘‘۔ میں نے آپکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں رکھا اور پھر اللہ پاک کے حضور پیش ہوگیا۔ اس بار مجھے پتہ ہی نہ چلا بس ہلکا سا اک شائبہ سا یاد ہے کہ میں اُسی ردھم میں بارگاہ کریمی میں موجود تھا اور قلندر پاکؒ میرے ساتھ تھے۔ قلندر پاکؒ نے آنکھ کھلوائی تو رات کے 1-1/2 بجے کا وقت تھا۔ آپؒ نے جانے کی اجازت دی اور فرمایا ’’صبح کا ناشتہ کر کے جلدی آنا‘‘۔ اگلی صبح میں پھر ہسپتال پہنچا اور دوپہر تک قلندر پاکؒ کے حکم پر 3 بار یکسوئی اختیار کی۔ میرے لُوں لُوں سے آگ نکلنے لگی۔ میرا جسم ایسے تھا جیسے اسکا وزن ہی نہ ہو ۔ بس ایک موج بیکراں تھی اور میں جیسے زمین پر نہ تھا۔ دوپہر کے بعد آپؒ نے مجھے اسلام آباد جانے کی اجازت دے دی اور فرمایا ’’اب اسلام آباد میں ملاقات ہوگی ‘‘۔میرے روانہ ہونے کے بعد ڈاکٹر اسد گیلانی کی کراچی سے لاہور آمد ہوئی اور قلندر پاکؒ کی خدمت میں پیش ہوئے ۔ بعد ازاں آپ ڈاکٹر جاوید صاحب کے گھر گئے پھر ڈاکٹر حسام کے کہنے پر دوبارہ ہسپتال میں کچھ طبی ٹیسٹ کیلیے گئے ۔وہاں سے آپؒ نے مجھے فون کیا اور فرمایا ’’سیّدبابا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حاکم کے حکم کے آگے پیش ہو جاؤں ۔ تمہارے بابا نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اب تم بابا کے وار ث ہو اور باقی سب جنہوں نے سورۃ الرحمن سُن لی ہے وہ سورۃ الرحمن کے پیغام کو پھیلائیں۔‘‘ اس فون کے بعد آپؒ اپنے گھر واقع بھاٹی گیٹ تشریف لے گئے اور اپنی بیگم صاحبہ سے فرمایا ’’ بابے کا ویزہ لگ گیا ہے، بابا جارہا ہے‘‘ ۔اور علی الصبح آپ ڈاکٹر اسد گیلانی، ڈاکٹر جاوید، ڈاکٹر حسام اور دیگر عقیدتمندوں کے ہمراہ للّہ روانہ ہوئے۔ ادھر میرے پاس ڈاکٹر شہزاد کی آمد ہوئی اور میں نے سارا واقعہ سنایا، پھر آپ سب کی ماں جی سے اجازت لے کر G-11 والے گھر پہنچے، سلیم اختر ، قیصرمبین سیمت سب ادھر اکھٹے ہوئے۔ سردیوں کے دن تھے، ہم نے یہ طے کیا کہ ہم ۵ بجے گھر سے روانہ ہوتے ہیں تاکہ ۷ بجے تک للّہ ٹاؤن پہنچ جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ جب قلندر پاکؒ سے ملاقات ہوئی تو آپؒ کے چہرے پر حسبِ معمول مسکراہٹ تھی۔ لیکن نظر آرہا تھا کہ جیسے تھکاوٹ نے غلبہ پا لیا ہے۔ اسی دوران دھوپ نکل آئی اور میں نے باہر پلنگ بچھوایا اور آپؒ کا بستر لگوایا پھر آپؒ کو وہاں لٹا دیا۔ آپؒ نے کچھ وقت آرام کیا پھر مجھے طلب کر کے فرمایا ’’ سیّد بابا ! بڑے بخاری صاحب سے ملو، ماحول بناؤ پھر میں بھی آتا ہوں‘‘۔ جب میں آپؒ کے والد بزرگوار کے پاس بیٹھا تھا تو آپؒ چوہدری سیہسر صاحب کے ہمراہ تشریف لائے۔ بڑے بخاری صاحب نے جب آپؒ کی طبیعت کا پوچھا تو فرمایا ’’ جھیڑا کام لینا سی لے لیا ھن واپسی‘‘ یعنی مالکِ کُل نے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اب واپسی کا سفر ہے۔ پھر فرمایا ’’بابے کو سب کچھ منظور ہے، منافقت منظور نہیں‘‘۔ یہ ملاقات کچھ دیر جاری رہی اس ملاقات میں منشاشاہ صاحب اور فرحت شاہ صاحب بھی موجود تھے۔ جب آپؒ باہر نکلے تو آپؒ نے اپنے بچپن کے دوست چوہدری سیہسر سے فرمایا ’’چوہدری زندہ حالت میں یہ بابے کا آخری وزٹ(visit) ہے اس کے بعد صرف بابے کی ڈیڈ باڈی(Dead body) ہی یہاں آئے گی‘‘۔ چوہدری صاحب رونے لگے تو قلندر پاکؒ نے فرمایا ’’تجھے رونے کی ضرورت نہیں پورا آسمان روئے گا‘‘۔
شام کے بعد آپؒ اسلام آباد کیلیے روانہ ہوئے اور زندگی کے باقی شب ر وز میرے ساتھ گزارے( ان ایام کی تفصیل آگے مضمون میں بیان کرونگا)۔
جس شام آپؒ نے پردہ فرمایا تو ہم اسی رات آپؒ کے جسدِ خاکی کو لیکر ڈھڈی تھل پہنچ گئے ۔علی الصبح آپؒ کے والد بزرگوار نے مجھے بلایا تاکہ تدفین کے معاملات طے کیے جاسکیں۔ اس موقع پر قلندر پاکؒ کے بڑے صاحبزادے سیّد منشا عباس بخاری اور چھوٹے بیٹے سیّدفرحت عباس بخاری بھی موجود تھے۔ ابتدائی طور پر آپؒ کے والدِ بزرگوار کا خیال تھا کہ قلندر پاکؒ کو انکی والدہ کے سرہانے دفن کیا جائے، چونکہ آپ ؒ کو اپنی والدہ سے بے حد محبت اور عقیدت تھی۔ میں نے بڑے بخاری صاحب کو قلندر پاکؒ کی وصیت کا بتایا، اسی اثناء چوہدری سیہسر بھی تشریف لے آئے اور انہوں نے بھی میری بات کی تصدیق فرمائی اور کہا مجھ سے بھی قلندر پاکؒ نے یہی کہا تھا۔ اسکے بعد آپؒ کے والد نے اثبات میں سرہلایا پھر پوچھا ’’ اب انکے بعد اس سلسلے کو کون آگے بڑھائے گا؟ ‘‘ ۔ چوہدری صاحب بولے ’’ قلندر پاکؒ نے مجھے کہا تھا میرا وارث سیّدبابا ہے اور یہ بھی حکم دیا تھا کہ بابے اور سیّد بابا کے درمیان کسی کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں جو ایسا کرے گا اسے نقصان پہنچے گا ‘‘۔ یہ بات سن کر آپ ؒ کے والدِ بزرگوار کھڑے ہوگئے اور یہ فرمایا ’’ اب تو آپکے لیے کھڑا ہونا لازم ہوگا‘‘۔ میں نے پہلے آپکے گھٹنوں کو پکڑا پھر فرطِ محبت سے کندھوں سے پکڑ کر بٹھایا اور کہاآپ ہمارے بزرگ ہیں اور قلندر پاکؒ کے اس فرمان کا قطی طور پر یہ مقصود نہیں کہ لوگ میرے لیے کھڑے ہوں، آپ میرے مرشد کے والد ہیں اور بہت قابلِ احترام ہیں۔ بڑے بخاری صاحب مسکرائے اور فرمایا ’’ میرے بیٹے کی وصیت کے مطابق آپکو ہر طرح کی آزادی ہے اور جہاں انکا حکم ہے وہیں انکی تدفین کی جائے‘‘ ۔
یہ صبح 06:30 بجے کا وقت تھا ، بارش کا جو سلسلہ آپؒ کے اسلام آباد آنے کے بعد شروع ہوا تھا ابھی بھی اسی قوت سے جاری تھا۔ مجھے صرف ایک ہی بات یاد آ رہی تھی جو آپؒ نے چوہدری سیہسر صاحب سے کہی تھی ’’ تجھے رونے کی ضرورت نہیں پورا آسمان روئے گا‘‘۔ بہر حال میں منشا بخاری صاحب اور قلندر پاکؒ سے نہایت پیار کرنے والے راجہ ماجد صاحب کے ہمراہ تدفین کی جگہ پہنچا، دونوں معزز احباب کو میں نے پیچھے آنے کا کہا اور خود قدم اٹھاتا ہوا ایک جگہ پہنچا تو قدم رک گئے دل سے آواز آئی یہی جگہ ہے وہاں ایک پتھر نشان کے طور پر رکھ دیا اور منشا صاحب سے کہا یہی جگہ ہے یہاں قبر تیار کروائی جائے۔
قلندر پاکؒ کو ۲۹ذوالحجہ 9 فروری کو بعد نماز عصر اسی جگہ سپرد خاک کیا گیا۔ ’’خُدا رحمت کُندایں عاشقانِ پاک طینت را‘‘۔

مزار مبارک کی تعمیر

آپ سب اس بات پر حیران ہونگے کہ مزار پاک کی تعمیرکے لیے کوئی ظاہری نقشہ نہیں بنوایا گیا ، بس اس حقیر نے ارادہ باندھا اور چاہنے والوں کی تڑپ اور محبت نے اسے ممکن بنادیا۔ جو بھی خیال جیسے جیسے قلندر پاکؒ کی طرف سے عطا ہوا، اسے ایک عملی شکل دی گئی اورآج مزار پاک آپکے سامنے ہے اور اپنے حسن و رعنائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ زمین چونکہ رتیلی تھی یہاں پر گھاس اور پودے لگانا ناممکن تھا آج چاروں اطراف سبزہ اور پودے قلندر پاکؒ کی کرامت کا مظہر ہیں۔ میں یہاں اس بات کا تذکرہ بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ مزار کی تعمیر میں راولپنڈی ، اسلام آباد ، ملتان اور لاہور کے عقیدت مندوں نے مالی طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ منشا بخاری صاحب کی مالی معاونت اور خدمات ہمیشہ شامل حال رہیں۔اس کام کی ادائیگی میں سلیم اختر، جو قلندر پاکؒ کے بے حد چاہنے والے ہیں، نے ایک مرکزی کردار ادا کیا۔

رضا صاحب مرحوم وہ پہلے پیارکرنے والے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے مالی معاونت فرمائی اور اس پراجیکٹ کا حصہ رہے۔ دیگر پیار کرنے والوں میں سمیر، خوشحال، وقار، قیصرموبین ، جبار،میاں سعید، کاشف اور سیّد شاہد نمایاں ہیں جنہوں نے دن رات محنت کر کے اپنی محبت کو نقش کیا اور یہ بات ممکن بنائی کے پہلے عُرس سے قبل ہی مزار کی تعمیر مکمل ہو، اور ایسا ہی ہوا۔

عُرس مبارک

بعض لوگوں نے یہ روایت مشہور کر رکھی ہے کہ عُرس کی تاریخوں کا فیصلہ خود قلندر پاکؒ نے کیا اور ۲۶، ۲۷، ۲۸ ذوالحجہ کی تاریخوں میں عُرس کرنے کا حکم دیا۔ یہ روایت سراسر غلط ہے اور اس میں کوئی بھی سچائی نہیں ،کیونکہ آپؒ کے وصال کی تاریخ ۲۹ ذوالحجہ ہے۔ ایک وارث ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فیصلہ تھا کہ مزار پاک کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پہلا عرس ۲۷، ۲۸، ۲۹ ذوالحجہ کو ہو گا۔ شروع کے چند سال عُرس مبارک ٹھنڈے موسم میں آتا رہا بعدازاں قمری ایام میں ہر سال 10 دن پیچھے آنے کے سبب عُرس کے موقع پر گرمی کی شدت نے زور پکڑنا شروع کر دیا۔ ایسے میں منشا بخاری صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ اب ان ایام میں گرمی نے زور پکڑ لیا ہے، مہمانوں کو سنبھالنا اور لوڈ شیڈنگ کے سبب بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے کیوں نہ عُرس مبارک کو فروری کے مہینے میں شفٹ کر دیا جائے۔ اس طرح ہر سال موسم کا تسلسل خنکی کا حامل بھی ہوگا اور زائرین کو کسی قسم کی الجھن کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ منشا صاحب کی تجویز بہت مناسب تھی اور ہم نے فیصلہ کیاکہ اب قلندر پاکؒ کا عُرس ہر سال۸،۷،۶ فروری کو ہی ہوا کرے گا۔ یوم وصال کے حوالے سے غسل کی پہلی تقریب ۲۶سے۲۹ ذوالحج کے درمیان کسی بھی دن منعقد ہوگی جبکہ غسل مبارک کی دوسری تقریب 5 فروری کو ہوا کرے گی اور یوں اب ہر سال غسل مبارک کی تقاریب اور عُرس مبارک انہی مقررکردہ تاریخوں میں منعقد ہوتا ہے، جو آپ یہ چند تصاریر دیکھ کر ان پرُ وقار اور خوبصورت تقاریب کے حسن کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

عرس مبارک کی تصاویر دیکھنے کے لئے یہاں کلک کریں

وارث کون؟

جب قلندر پاکؒ نے پردہ فرمایا تو ہر طرف ایک بے چینی پھیل گئی ۔ بالخصوص چاہنے والے مختلف گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ سب سے بڑی حقیقت یہی تھی کہ ہر فرد صرف فیضِ قلندر کا حامل تھا اور فقر کے حسن اور لطافت سے بالکل نا بلد تھا۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ابلیسی قوت نے نفسی سر کشی کے ذریعے ہر فرد کو ورغلایا ، حتٰی کہ چند ایک نے سوۃ الرحمن کی آڑ میں فقیری کا لبادہ اُوڑھ لیا۔ بحیثیت وارث یہ ایک نازک موڑ تھا۔ قلندر پاکؒ کی نظرِکرم سے انہی بہت سارے بکھرے ہوئے لوگوں کو جو اندرونِ ملک اور باہر کی دنیا میں تھے سب کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اور قلندر پاکؒ کی صحبت میں یکسو کر دیا۔ کچھ لوگ اب بھی آزاد حیثیت میں پیغام پھیلاتے ہیں مگر میرے سے رابطے میں بھی رہتے ہیں۔ ویسے بھی قلندر پاکؒ نے فرمایا ’’پیغام سب پھیلا سکتے ہیں، سب کو اجازت ہے ، جو سن لے اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں‘‘۔
کچھ لوگوں کو میرے وارث ہونے پر اعتراض ہو سکتا ہے ، مگر جب وہ قلندر پاکؒ کے خوبصورت مزار کی زیارت کے لیے آتے ہیں تو کیا یہ نقطہ انکے لیے کافی نہیں کہ اسے وارث نے ہی تعمیر کروایا ہے۔ چند لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قلندر پاکؒ نے فرمایا کہ چونکہ سیّد کے پاس قلم کی طاقت ہے اس لیے وہ وارث ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ فرمانِ قلندرؒ کا باطن آپکو معلوم ہے؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں کیا فرمایا’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں‘‘ ۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے نئے لوگوں کو میرے اور قلندر پاکؒ کے مضبوط تعلق اور محبت کا شاید ہی ادراک ہو، ان سب لوگوں کے لیے یہی کافی ہوگا کہ شہنشاہ قلندرؒ نے اپنے وارث ہی کے گھر پردہ فرمایا۔ان آخری ایام میں کیا باتیں ہوئیں وہ میں قلندر پاکؒ کے مضمون میں مکمل بیان کرونگا۔ وہ ہر جگہ میرا ذکر فرماتے اور میں ہمیشہ یہی کہتا کہ آپؒ اس بات کا اظہار نہ کیا کریں یہ کافی نہیں کہ میں آپ ؒ کا چاہنے والا ہوں۔ شروع کے ایام میں جب قلندر پاکؒ سے میری ملاقات ہوئی اور آپؒ میرے گھر تشریف لائے تو میری بیگم محترمہ آصفہ شاکر (جنہیں سارے پیار کرنے والے ماں جی کے نام سے پکارتے ہیں) سے فرمایا ’’ بابے کو حکم ملا ہے کہ اسلام آباد جاؤ وہاں ایک سیّد ہے جو تمھارا وارث ہے……. بابے نے سیّد کو تاڑ لیا ہے‘‘۔ ایک بات یہاں واضع کرنا ضروری ہے کہ وارث گدی نشین نہیں ہوتا ۔وہ کسی صاحب عظمت کی محبت کا امین ہوتا ہے اور وہ صاحبِ حُسن اُسے اپنی نگاہ سے روشن کرتا ہے اور جو کام لینا مقصود ہے اُسکی سچائی سے روشن کرتا ہے اور کام لیتا ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں ! قلندر پاکؒ کے مزار کے گدی نشین آپکے چھوٹے صاحبزادے اور ہم سب کی دلوں کی جان جناب فرحت بخاری صاحب ہیں۔
1998 میں آپؒ نے سلمان امام، جو قلندر پاکؒ کے چاہنے والے ہیں، ان کے گھر واقع چکلالہ میں بہت سارے لوگوں کی موجودگی میں ارشاد فرمایا ’’ میں نے سورۃ الرحمن پر ریسرچ مکمل کی اور اسے سیّد بابا کے سینے میں ٹرانسفر کر دیا‘‘ ۔وہاں موجود ایک بڑے افسر کی بیگم نے مجھ سے ایک سانس میں کئی سوال کرڈالے ’’ کیسے ٹرانسفر کی؟ کیا تحریری طور پر دی؟ یا زبانی آپکو بیان فرمائی؟ میں صرف مسکرایا کیونکہ میرے لیے بھی یہ بات بالکل نئی تھی اور ابھی تو میں اس راز سے بالکل واقف نہ تھا۔ آگے چل کر 2000  میں سوۃ الرحمن کے حوالے سے پاکستان ٹیلی ویژن پر جب متعدد پروگرام بحیثیت پروڈیوسر پیش کیے تو تب اس راز سے تھوڑی سے آگہی حاصل ہوئی ۔اور یو ں قلندر پاکؒ کی یکسوئی سے حاصل ہونے والی روشنی پوری کائنات میں پھیل گئی۔ قلندر پاکؒ سورۃالرحمن کے حوالے سے اِسقدر یکسو تھے کہ ہر وقت صرف یہی باتیں کرتے ’’ کس کس کو پیغام دیا؟ کس کس نے سن لی ہے؟ کس قسم کے مریضوں کو سنوائی؟ ویب سائیٹ پر کتنے لوگوں نے وزٹ کیا ہے؟ Website کے حوالے سے آپ نے مجھے حکم دیا کہ ہماری ویب سائیٹ بھی ہونی چاہیے۔ میں نے
Mast Mast Healears Present the Ultimate Ramedy اسکا ٹائیٹل تجویز کیا جسے آپ نے بے حد سراہا۔ بعد ازاں میں نے باقی کی مضمون لکھ کر www.alrehman.com کے نام سے رجسٹرڈ کروائی جو آج بھی زبان زدِ عام ہے۔ اور جسکوبھی سورۃ الرحمن کی آڈیو اور طریقہ حاصل کرنا ہو وہ یہاں سے download کر سکتا ہے۔ ہر قدم پر قلندر پاکؒ کی رہنمائی اورتوجہ عطا کردہ روشنی کو جلا بخشتی رہی اور جو کچھ بھی ممکن ہوا وہ قلندر پاکؒ کی نورانیت سے ہی ہوا۔آپؒ اپنی حیاتِ مبارکہ میں تمام کام مکمل کرکے گئے۔ عقیدت مندوں کو تو صرف سورۃ الرحمن کو پھیلانا ہے۔ ایک دن کچھ کاظمی سادات باباؒ سے ملنے راجہ ماجد صاحب کے گھر تشریف لائے تو باتوں کے دوران انہوں نے بابا سے استفسار کیا کہ آپکا روحانی علم کس کے ہاتھ میں ہے؟ باباؒ نے مجھے آواز دی ’’ سیّد بابا اب یہ آپکی حدود میں داخل ہونا چاہتے ہیں‘‘۔ میں نے اہل سادات سے کہا بَخدا میرے اندر ایسی کوئی اہلیت اور صلا حیت نہیں ہے جسکی بنیاد پر یہ عطا ہوا، یہ تو صرف اللہ پاک کی مرضی ہے۔اس طرح ایک دفعہ ہم اسلام آباد میں ایک اخبار کے دفتر گئے۔ مالک اخبار جناب مہتاب احمد خان آپ سے فرطِ محبت میں باتیں پوچھتے رہے اور قلندر پاکؒ اپنی جذب و مستی سے جواب دیتے رہے۔ وہاں موجود ایک صحافی تبسم شاہ صاحب یہ سب کچھ لکھ بھی رہے تھے کہ مہتاب صاحب نے اچانک سوال کر دیا’’بابا آپکے بعد آپکا وارث کون ہوگا؟ ‘‘ قلندر پاکؒ شانِ بے نیازی سے بولے’’ یہ جو سیّد بابا ہے یہ وارث ہے‘‘ ۔میں گھبرا گیا کہ کل اخباروں میں خبر چھپے گی، ممکن ہے کچھ لوگوں کو اچھا نہ لگے ۔ میں ایسا کرونگا جب باباؒ باہر کو نکلیں گے میں اس صحافی کو کہہ دونگا کہ یہ والی بات نہیں چھاپنی۔ جب ہم وہاں سے رخصت ہونے لگے اور قلندر پاکؒ اس صحافی کے پاس سے گزرے تو میری طرف دیکھا اور مسکرائے اور اُسے کہا یہ وارث والی بات بالکل نہ چھاپنا باقی سب ٹھیک ہے۔ پھر میری طرف متوجہ ہوئے’’ہاں سیّد بابا اب خوش ہو‘‘ ۔ آپ دیکھیں کہ کیا صاحب بصیرت تھے۔ حضور پرنورﷺ کا ارشاد ہے ’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ‘‘ ۔ یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصود کسی بھی پیار کرنے والے کو اپنا عقیدت مند یا تابع کرنا مقصود نہیں بلکہ اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ اللہ جیسے چاہتا ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور کام لیتا ہے۔ قلندر پاکؒ ہمیشہ اللہ کی موج اور مرضی کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ آپؒ نے ہی فرمایا ’’ جو نظر آتا ہے وہ ہے نہیں جو ہے وہ نظر نہیں آتا‘‘۔
اب قلندر پاکؒ کی نگاہ سے جو روشن ہوا ، اس سے قلندر پاکؒ پر مضمون کی ابتدا کرتا ہوں۔اللہ پاک قلندر پاکؒ کے صدقے میری مدد فرمائے اور اسے مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مکمل کتاب کےلیے یہاں کلک کریں۔